Essay: Ideology of Pakistan (Urdu)

نظریہ پاکستان

متبادل عنوانات     ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ       ۔     ۔۔۔۔۔پاکستان، اسلام کا قلعہ         ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کیو ں بنا؟              ۔ ۔۔۔۔۔تحریک پاکستان

نظریہ ، ۔ اس میں، کسی فرد یا قوم کا طرز فکر ، زاویہ نظر ، ضابطہ حیات اور نظام زندگی وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ کسی قوم کے لئے نظریے کی حیثیت روح کی سی ہے۔ اگر ایک قوم کسی نظریہ کے بغیر زندگی بسر کر رہی ہو تو اس کی زندگی کسی ولولے ، جذبے اور حرکت و حرارت سے خالی ہو گی کیونکہ نظریہ یا مقصد ہی زندگی میں امنگ ، ولولہ اور جوش پیدا کر تا ہے اور اس اعتبار سے وہ ایک زبردست قوت محرکہ ہے۔ بے مقصد زندگی کے باقی اور بر قرار رہنے کے امکانات بھی بہت کم ہںو۔ علامہ اقبال کے بقول: قو مںگ فکر سے محروم ہو کر تباہ ہو جاتی ہں ۔“ نظریہ پاکستان “ سے مراد وہ نظر یہ ، وہ فکر اور وہ آئڈایالوجی ہے جس پر پاکستان کی بناید رکھی گئی اور وہ ہے اسلام جو جداگانہ قومتا کا نظریہ اور مسلمانوں کے علحد ہ اور ثقافتی وجود کی اساس ہے۔ قائد اعظم کے خاتل مںد پاکستان کی بنارد اس روز رکھ دی گئی جس روز ہندوستان مںت پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ شخص کلمہ طبہ پڑھ کرہی ایمان لایا اور مسلمان ہوا تھا۔ اس اعتبار سے کلمہ طیبہ  ہی پاکستان کی بنیا د ہے۔ نظریہ پاکستان متبادل عنوانات : ا ۔ پاکستان کا مطلب کاہ لا الہ الاللہ ۔ پاکستان ، اسلام کا قلعہ پاکستان کوپں بنا ؟ تحریک پاکستان نظریہ ، ۔ اس مں کسی فرد یا قوم کا طرز فکر ، زاویہ نظر ، ضابطہ حاوت اور نظام زندگی وغر ہ سبھی شامل ہںج ۔ کسی قوم کے لئے نظریے کی حتلم روح کی سی ہے ۔ اگر ایک قوم کسی آئڈلیالوجی کے بغرک زندگی بسر کر رہی ہو تو اس کی زندگی کسی ولولے ، جذبے اور حرکت و حرارت سے خالی ہو گی کولنکہ نظریہ یا مقصد ہی زندگی مںا امنگ ، ولولہ اور جوش پد ا کر تا ہے اور اس اعتبار سے وہ ایک زبردست قوت محرکہ ہے ۔ بے مقصد زندگی کے باقی اور بر قرار رہنے کے امکانات بھی بہت کم ہںہ ۔ علامہ اقبال کے بقول : قو مںو فکر سے محروم ہو کر تباہ ہو جاتی ہںو ۔ “نظریہ پاکستان “ سے مراد وہ نظر یہ ، وہ فکر اور وہ آئڈجیالوجی ہے جس پر پاکستان کی بنااد رکھی گئی اور وہ ہے اسلام جو جداگانہ قومتم کا نظریہ اور مسلمانوں کے علحدمہ اور ثقافتی وجود کی اساس ہے ۔

قائد اعظم کے خاال مںپ پاکستان کی بناہد اس روز رکھ دی گئی جس روز ہندوستان مںن پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ شخص کلمہ طبہی پڑھ کرہی ایمان لایا اور مسلمان ہوا تھا ۔ اس اعتبار سے کلمہ طبہن ہی پاکستان کی بنارد ہے ۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی مںن ناکائی کے اور مں اور مںک اپنی غلا گار ہے پارر کی اور نگری کے احساسا مںا شہد ہونے لگے اور ان کے اندر حصول آزادی کا منہ پہ نشو و نما پا لے گا۔ آزادی کے راستے مںر انگریزولی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا طرز عمل بھی بہت بڑی رکاوٹ تھا۔ ۱۹۰۲ء مںی مسلمانوں کے لےا حقوق کے حصول اور تحفظ کی خاطر مسلم لگن قائم کی ۔ ہند و توام که عاارانه طرز عمل سے مسلمانوں کے اندر یہ احساسی نام ہو پایا کہ اگر انگریز بہاتے وقت ہندوستان کی حکومت ہندوؤں کے سپر د کھرے گئے تو اکثریت کے بل بوتے پر ہند و مستقبل کے منکر ان ہو ان کے اور بند دراج مںے مسلمانوں کی حتدر شو داروں کی کی ہو گی۔ چنانچہ مختلف لوگوں کی طرف سے ایک علحدپہ مسلم ریاست کے تصورات پشب کے جانے لگے۔ تی کہ ۱۹۳۰ مگر علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد نے واضح طور پر اعلان کای۔ ہندوستان کی سا سی زندگی نے ایک نہایت نالہ کی صورت اختاکر کرلی ہے ۔ اسلام پر ابتلاد آزمائش کا ایسا سخت وقت کبھی نہں آیا جساا کہ آج در پشو ہے۔ مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان مںگ ایک اسلامی مملکت قائم کی ساسست ، بالکل حق بجانب ہے۔ مریی خواہش ہے کہ پنجاب صوبہ ر لہ سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست مںو ملا دیا جائے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہںہ کہ اسلام بحتدوس ایک تندی قوت کے زندہ ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصو مںر علاقے مں اپنی مرکزیت قائم کر سکے۔ مںم صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہود کے خاکل سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہو لاے۔“ اس اعلان کو ’’ تصور پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ یین تصور اور ییل نظریہ ، تحریک پاکستان کی بناحد بنا اور اللہ تعالی کی تائدی و نصرت سے قائد اعظم نے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ ۱۹۴۰ء مں۔ لاہور کے منٹو پارکی (اب اقبال پارک) مںے منعقدہ ایک تارییر جلسہ عام مںح شیر بنگال مولوی اے کے فضل ستی نے قا م پاکستان سے ملا لنےح پر مبنی ایک قرار داد پشن کی جو بعد میں ” قرار داد پاکستان“ کے نام سے معروف ہوئی۔ یین تارییت قرار داد حصول پاکستان کی بناند بنی۔ اقبال پارک مںک منالر پاکستان اسی تاریی چلے اور قرار داد پاکستان کی یاد گاری علامت ہے ۔۔ قرار داد پاکستان کی شکل مں مسلمانوں نے ہندوستان کے اندر ایک الگ اسلامی مملکت کا باقاعدہ مطالبہ پشا کاپ۔ حصول پاکستان کے تلے ساےسی جد وجہد کا آغاز ہوا اور بہت جلد ہندوستان کے طول و عرض مں : پاکستان کا مطلب کاف۔ ا الہ الا للہ کا نعرہ کو سنے لگا ۔ ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پٹن کاح، گھر بار لٹ نے اعزہ واقربا سے جد اہو سے وطن سے ہجرت کی۔ آخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ایک نئی مسلمان ممیت دناز سے بے پر ابھر کی یہ تاریخ کا ایک عظمع الشان پاکستان کلمہ طبہت کی بنامد پر وجود مںا آیا تھا۔ مسلمانوں نے سار کا قرباناآں اسلامی نظریے کی خاطر دی تھںم۔ قائد اعظم نے کئی بار مطالبہ پاکستان کے محرکات کا جو وضاحت کی، جب پاکستان معرض وجودش آیا تو انہوں نے متعد و موقع پر اسکی وضاحت بھی کی مراا ایمانتا ہے کہ امام کا شاسته ای اسوہ حسنہ پر ہے جو مںے قانونی است ہے جو کرنے والے پغمبر اسلام سنہ ہمںس چاہےپ کہ ہم اپنی جمہوریت کی باادد کے ماورای اسلامی تصورات والواوان رکھںک ۔ (۱۲ فرور ۰۱۹۴۷) پر ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی مں ناکائی کے اور مںس اور مںح اپنی غلا گا ہے پا ر کی اور نگری کے احساسا مںب شہدن ہونے لگے اور ان کے اندر حصول آزادی کا منہ پہ نشو و نما پا لے گا ۔ آزادی کے راستے مںم انگریزولی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا طرز عمل بھی بہت بڑی رکاوٹ تھا ۔ ۱۹۰۲ ء مںا مسلمانوں کے لےہ حقوق کے حصول اور تحفظ کی خاطر مسلم لگپ قائم کی ۔ ہند و توام که عا۵رانه طرز عمل سے مسلمانوں کے اندر یہ احساسی نام ہو پایا کہ اگر انگریز بہاتے وقت ہندوستان کی حکومت ہندوؤں کے سپر د کھرے گئے تو اکثریت کے بل بوتے پر ہند و مستقبل کے منکر ان ہو ان کے اور بند دراج مں۵ مسلمانوں کی حت ا شو داروں کی کی ہو گی ۔ چنانچہ مختلف لوگوں کی طرف سے ایک علحدںہ مسلم ریاست کے تصورات پشت کے جانے لگے ۔ تی کہ ۱۹۳۰ مگر علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد نے واضح طور پر اعلان کا ۔ ہندوستان کی ساوسی زندگی نے ایک نہایت نالہ کی صورت اختا ر کرلی ہے ۔ اسلام پر ابتلاد آزمائش کا ایسا سخت وقت کبھی نہں آیا جساآ کہ آج در پش ہے ۔

مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان مںز ایک اسلامی مملکت قائم کی سا ست ، بالکل حق بجانب ہے ۔ مرےی خواہش ہے کہ پنجاب صوبہ ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست مںے ملا دیا جائے ۔ اگر ہم یہ چاہتے ہںم کہ اسلام بحتوست ایک تندی قوت کے زندہ ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصو مںم علاقے مں اپنی مرکزیت قائم کر سکے ۔ مںد صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہود کے خاال سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہو لات ۔ “ اس اعلان کو تصور پاکستان کا نام دیا جاتا ہے ۔ ییو تصور اور ییت نظریہ ، تحریک پاکستان کی بنا د بنا اور اللہ تعالی کی تائد و نصرت سے قائد اعظم نے اس تحریک کو پروان چڑھایا ۔ ۱۹۴۰ ء مں“ لاہور کے منٹو پارکی ( اب اقبال پارک ) مںو منعقدہ ایک تارییں جلسہ عام مںم شر بنگال مولوی اے کے فضل حق نے قالم پاکستان سے ملا لنے پر مبنی ایک قرار داد پش کی جو بعد مں ” قرار داد پاکستان “ کے نام سے معروف ہوئی ۔ ییت تارییھ قرار داد حصول پاکستان کی بناسد بنی ۔ اقبال پارک مںض منامر پاکستان اسی تاریی جلسے اور قرار داد پاکستان کی یاد گاری علامت ہے ۔۔ قرار داد پاکستان کی شکل مں مسلمانوں نے ہندوستان کے اندر ایک الگ اسلامی مملکت کا باقاعدہ مطالبہ پشا کام ۔ حصول پاکستان کے تلے سا سی جد وجہد کا آغاز ہوا اور بہت جلد ہندوستان کے طول و عرض مںی : پاکستان کا مطلب کاے ۔ ا الہ الا للہ کا نعرہ کو سنے لگا ۔ ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پشر کاو ، گھر بار لٹائے اعزہ واقربا سے جد اہو ئے وطن سے ہجرت کی ۔ آخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو ایک نئی مسلمان ممتکا دنای میں ابھری یہ تاریخ کا ایک عظمم الشان واقع تھا۔ پاکستان کلمہ طبہ کی بناند پر وجود مںن آیا تھا ۔ مسلمانوں نے ساری قرباناآں اسلامی نظریے کی خاطر دی تھںم ۔ قائد اعظم نے کئی بار مطالبہ پاکستان کے محرکات کا جو وضاحت کی ، جب پاکستان معرض وجودمیں آیا تو انہوں نے متعد و موقع پر اسکی وضاحت بھی کی مرما ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پرچلنے میں ہے جو ہںال قانون عطا کرنے والے پغمبرو اسلام نے دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنادد کے ماورای اسلامی تصورات والواوان رکھںی ۔ ( ۱۲ فرور ۰۱۹۴۷ ) اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بناشدی سر چشمہ ہے۔“ (۱۲۴ سمبر ۱۹۴۷ء) ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمند کا ٹکٹر احاصل کرنے کے لئے نہںو کال تھا بلکہ ہم ایک ایی۹ تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکںش۔“ (۳۱جنوری ۱۹۴۸ء) ” مں ان لوگوں کی بات نہںر سمجھ سکتا جو یہ دانستہ اور شرارت سے پروپگنڈ ا کرتے رہتے ہںہ کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بناڈد پر نہںپ بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول ، عام زندگی مںس آج بھی اسی طرح قابل اطلاق مںی جس طرح ترکہ سو سال پہلے تھے۔“ (۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء) خود غرض اور مفاد پرست راہ نما اور طالع آزما ساسست دان ذاتی فائدوں کے نشے مںا مد ہوش ہو کر قومی اور ملی تو تصوں ست شامل ہو گئے۔۔۔ ہوس اور لاچی نے انھںس اندھا کر دیا۔ انہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا اور جمہوری نہ کی مٹی پلدے کی جس کا اہم ناک انجام یہ ہوا کہ ملک کا ایک حصہ کٹ کر علحد ہ ہو اور سقوط مشرقی پاکستان جسا درد ناک سانحہ پش۔ آیا۔ اہل پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ نصف صدی کا سفر طے کر لنے کے بعد نظریہ پاکستان کی مختلف مادی ، معاشی اراضی اور وطنی توصا ت پشل کی جانے لگی ہںن تا کہ قاآم پاکستان کے اصل مقاصد کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں مں شکوک و شبہات پدرا کئے چاسکںہ لکنم حققتی یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبے کی بنا د کلمہ طبہی پر تھی۔ محض زمنا کے مخصوص لکھنے سے محبت کی خاطر انتی ۔ بڑی تحریک نہںر چلائی گئی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ خود غرض ساقست دانوں نے قاام پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈالی دیا۔ اوار سے سنتے تو لا۔قت علی خان کا یہ قول ایک تنبہق ہے: ” اگر ہم نے پاکستان مںا اسلامی نظام قائم نہ کا تو ملک تباہ ہو جاے گا۔ * اہل پاکستان کے لئے بہترین لائحہ عمل نہںو ہے کہ وہ نظر یہ پاکستان کی مشعل کو نہ صرف روشد ہ تھں ، بلکہ اس کی او کو اور تز کر کاا اور پوری استقامت اور حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہںک ۔ اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بناردی سر چشمہ ہے ۔ “ ( ۱۲۴ سمبر ۱۹۴۷ ء ) ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمنا کا ٹکٹر احاصل کرنے کے لئے نہںس کاک تھا بلکہ ہم ایک اییم تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکںک ۔ “ ( ۳۱ جنوری ۱۹۴۸ ء ) ” مںت ان لوگوں کی بات نہںد سمجھ سکتا جو یہ دانستہ اور شرارت سے پروپگنڈہا کرتے رہتے ہںہ کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بناچد پر نہںد بنایا جائے گا ۔ اسلام کے اصول ، عام زندگی مں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق مںہ جس طرح ترسہ سو سال پہلے تھے ۔ “ ( ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ ء ) خود غرض اور مفاد پرست راہ نما اور طالع آزما ساوست دان ذاتی فائدوں کے نشے مں۔ مد ہوش ہو کر قومی اور ملی تو تصوں ست شامل ہو گئے ۔۔۔ ہوس اور لالچ نے انھیں اندھا کر دیا ۔ انہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا اور جمہوریت کی مٹی پلید کی جس کا المناک انجام یہ ہوا کہ ملک کا ایک حصہ کٹ کر علحد ہ ہو اور سقوط مشرقی پاکستان جیسا درد ناک سانحہ پیش آیا ۔ اہل پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ نصف صدی کا سفر طے کر لنےن کے بعد نظریہ پاکستان کی مختلف مادی ، معاشی اراضی اور وطنی توصایت پشر کی جانے لگی ہںک تا کہ قا۱م پاکستان کے اصل مقاصد کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں مںا شکوک و شبہات پدپا کئے چاسکںا لکنک حققتع یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبے کی بناتد کلمہ طبہی پر تھی ۔ محض زمنر کے مخصوص لکھنے سے محبت کی خاطر انتی ۔ بڑی تحریک نہںت چلائی گئی تھی ۔ اصل بات یہ ہے کہ خود غرض ساہست دانوں نے قاںم پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈالی دیا ۔ اوار سے سنتے تو لا قت علی خان کا یہ قول ایک تنبہ ہے : ” اگر ہم نے پاکستان مںچ اسلامی نظام قائم نہ کاد تو ملک تباہ ہو جاے گا ۔

 اہل پاکستان کے لئے بہترین لائحہ عمل یہی ہے کہ وہ نظر یہ پاکستان کی مشعل کو نہ صرف روشنہ رکھیں ، بلکہ پوری استقامت اور حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ر ہیں ۔

Share on Google Plus

About Zubair Khan

    Blogger Comment
    Facebook Comment